کئی برسوں کے بعد ایران اور امریکہ پہلی بار براہ راست مذاکرات کی میز پر بیٹھنے جا رہے ہیں۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب دنیا ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس بات چیت کا مرکزی نکتہ ایران کا متنازع جوہری پروگرام ہے، جس پر کئی سالوں سے بین الاقوامی سطح پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔
پس منظر: جوہری معاہدے کی ابتدا اور انجام
2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں — امریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی اور برطانیہ — نے ایک تاریخی جوہری معاہدہ (جے سی پی او اے) پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور بین الاقوامی نگرانی کی اجازت دینے پر آمادگی ظاہر کی، بدلے میں اس پر عائد عالمی پابندیاں نرم کر دی گئیں۔
تاہم، 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ختم کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ ’ادھورا‘ اور ’کمزور‘ ہے، کیونکہ یہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں اس کی جارحانہ پالیسیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں اور ایران کو “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کے تحت جھکانے کی کوشش کی۔
ایران کا ردِعمل اور جوہری پروگرام کی پیش رفت
امریکی فیصلے کے جواب میں ایران نے بھی جوہری معاہدے کی شرائط سے بتدریج انحراف کرنا شروع کر دیا۔ اس نے جدید سنٹری فیوجز نصب کیے، یورینیئم کی افزودگی کی حد کو بڑھایا، اور جوہری سرگرمیوں کو تیز کر دیا۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے مطابق، 2025 کے آغاز تک ایران کے پاس 275 کلوگرام یورینیئم موجود تھا جسے 60 فیصد تک خالص کیا گیا ہے۔ جوہری ہتھیار کی تیاری کے لیے 90 فیصد خالص یورینیئم درکار ہوتا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران چاہے تو وہ چند ہفتوں میں ایسی مقدار تیار کر سکتا ہے جو ایک بم کے لیے کافی ہو۔
تاہم، ایک مکمل جوہری ہتھیار کی تیاری، جانچ، اور اسے قابل استعمال بنانے میں ایران کو کم از کم چھ ماہ سے لے کر ڈیڑھ سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
عالمی برادری کے خدشات اور اسرائیل کی تشویش
ایران ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد جیسے توانائی، طب اور زراعت کے لیے ہے۔ تاہم، کئی ممالک، خاص طور پر اسرائیل اور امریکہ، کو خدشہ ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایک جوہری ایران، جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، پورے خطے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل خود جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے نہ تو تصدیق کرتا ہے اور نہ انکار، جبکہ وہ نان پرولیفریشن معاہدے (NPT) کا رکن بھی نہیں۔
مذاکرات کا موجودہ منظرنامہ
حالیہ اطلاعات کے مطابق، امریکہ اور ایران کے درمیان بات چیت سنیچر کو شروع ہو رہی ہے۔ اگرچہ سابق صدر ٹرمپ نے اسے براہ راست مذاکرات قرار دیا ہے، ایرانی وزیر خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ یہ بالواسطہ بات چیت ہوگی جو سلطنت عمان میں منعقد ہو گی۔
ایران کی شرط ہے کہ امریکہ پہلے فوجی کارروائی کے آپشن کو مکمل طور پر مسترد کرے، تب ہی بات چیت ممکن ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور اسرائیل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نیا معاہدہ تبھی قابل قبول ہوگا جب ایران مکمل طور پر اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرنے پر آمادہ ہو۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے یہاں تک کہا ہے کہ صرف وہ معاہدہ قابل قبول ہوگا جس میں ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، چاہے وہ امریکی نگرانی میں ہی کیوں نہ ہو۔
فوجی کارروائی کا امکان اور خطرات
اگرچہ امریکہ اور اسرائیل کے پاس ایران کے جوہری مراکز کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے، لیکن ایسی کسی کارروائی کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ ایران اپنے دفاع میں خطے میں امریکی مفادات پر حملے کر سکتا ہے یا اسرائیل پر میزائل داغ سکتا ہے۔ایران کے بعض جوہری مراکز زمین کے نیچے گہرائی میں بنائے گئے ہیں جنہیں صرف خاص قسم کے بنکر شکن بم ہی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
امریکہ کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے، مگر اسرائیل کے حوالے سے یہ واضح نہیں۔مزید یہ کہ خطے کے دیگر ممالک، مثلاً قطر، جو امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے، ممکن ہے کہ کسی ممکنہ جوابی حملے کے خوف سے ایران پر حملے میں امریکہ کی مدد کرنے سے گریز کریں۔