ستمبر 1960 کی وہ صبح عام دنوں جیسی نہ تھی۔ باجوڑ کے بلند و بالا اور پتھریلے پہاڑوں کی فضا میں ایک غیر معمولی تناؤ رچا ہوا تھا، جیسے ہوا یہ پیغام دے رہی ہو کہ آج کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ سورج کی پہلی کرنیں ابھی پہاڑوں پر سنہری جھلک ڈال ہی رہی تھیں کہ یکدم افغان توپ خانے کی دھماکہ خیز آوازوں نے سکوت کو توڑ ڈالا۔چند لمحوں بعد ہی سرحد پار کنڑ کے پہاڑی راستوں سے ہزاروں افغان فوجی اور قبائلی لشکر بندوقیں اٹھائے، فلک شگاف نعرے لگاتے، پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ رہے تھے۔ ان کے قدموں سے اڑتی دھول اور فضا میں گونجتے نعرے اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ اب تصادم یقینی ہے۔ باجوڑ اب ایک ایسی لڑائی کا مرکز بننے جا رہا تھا جو صرف زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا نہیں بلکہ پورے خطے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی تھی

فقیر ایپی سے محمد داؤد تک: تعلقات کی پرانی گتھیاں
پاکستان بننے کے بعد بھی افغانستان نے نئی ریاست کو دل سے تسلیم نہ کیا۔ امریکی محققین ڈیوڈ گارٹنسٹائن راس اور تارا واسیفی اپنی تحقیق “افغانستان-پاکستان تعلقات کی فراموش شدہ تاریخ” میں جامعہ کراچی کے وزیٹنگ پروفیسر جارج مونٹاگنو کا حوالہ دیتے ہیں کہ کابل حکومت برسوں تک پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے قبائل کو پیسہ، اسلحہ اور حتیٰ کہ ٹرانزسٹر ریڈیو تک تقسیم کرتی رہی۔
شمالی وزیرستان میں مشہور رہنما فقیر ایپی نے پاکستان کے خلاف “آزاد پختونستان” کے قیام کا اعلان کیا، جسے کابل، دہلی اور ماسکو نے بڑھاوا دیا۔ وزیرستان کے قبائلی مؤرخ لائق شاہ درپہ خیل اپنی کتاب “وزیرستان” میں لکھتے ہیں کہ افغان حکومت نے اس خود ساختہ ریاست کے لیے باقاعدہ عملہ فراہم کیا اور ان کی تنخواہیں بھی خود ادا کیں۔ مگر پاکستان کے دباؤ کے باعث 7 ستمبر 1948 کو کابل نے فقیر ایپی کو کھلی وارننگ دی کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں سے باز آ جائیں۔
اس انتباہ کے باوجود کابل کی پالیسی نہ بدلی۔ 30 ستمبر 1950 کو پاکستان نے دعویٰ کیا کہ افغان قبائل اور فوجیوں نے چمن کے قریب پاکستانی حدود پر حملہ کیا۔ چھ دن کی لڑائی کے بعد انہیں واپس دھکیل دیا گیا۔ افغانستان نے اس میں براہ راست کردار سے انکار کیا اور کہا کہ یہ پشتون قبائل کی اپنی کارروائی تھی، مگر شواہد اور بعد کے واقعات نے پاکستان کے موقف کو زیادہ معتبر ثابت کیا۔—
تعلقات میں بگاڑ اور کشیدگی
پچاس کی دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مسلسل بگڑتے گئے۔ اٹھارہ ماہ تک تجارت بند رہی۔ 1955 میں پاکستان نے قبائلی علاقوں پر کنٹرول مضبوط کرنے کا اعلان کیا تو کابل میں بڑے مظاہرے شروع ہو گئے۔ البرٹا یونیورسٹی کے پروفیسر ایس ایم ایم قریشی کے مطابق اس دوران کابل میں پاکستانی پرچم اتار کر اس کی توہین کی گئی اور سفارت خانے کی عمارت پر “پختونستان” کا جھنڈا لہرایا گیا۔ افغان حکومت کی سرپرستی میں کابل، قندھار اور جلال آباد میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے
۔1956 سے 1959 کے درمیان سرحدی جھڑپیں معمول بن گئیں۔ افغان وزیراعظم محمد داؤد خان نے 29 مارچ 1955 کو ریڈیو کابل پر براہ راست تقریر میں پاکستان پر سخت تنقید کی، جس سے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔

باجوڑ پر افغان فوج کا حملہ
مورخ پیٹر ہاپکرک “دی گریٹ گیم: دی سٹرگل فار ایمپائر ان سنٹرل ایشیا” میں لکھتے ہیں کہ باجوڑ میں مسئلے کی پہلی جھلک توپوں کے شور سے پہلے بغاوت کی سرگوشیوں میں دکھائی دی۔ پاکستانی حکومت کے وفادار قبائل نے مشکوک نقل و حرکت کی اطلاع دی تھی اور کہا تھا کہ ایسے لوگ پہاڑوں میں گھوم رہے ہیں جو بغاوت اور فتح کی باتیں کرتے ہیں۔
ابوبکر صدیق اپنی کتاب “دی پشتون کوئسچن: دی انریزولوڈ کانفلکٹ بیٹوین افغانستان اینڈ پاکستان” میں لکھتے ہیں کہ صبح کی پہلی روشنی کے ساتھ ہی افغان توپ خانے کی بمباری شروع ہوئی اور افواج سرحد پار کر گئیں۔ باجوڑ اب ایک کھلی جنگ کا میدان بن چکا تھا جس کا مقصد سرحد کے مستقبل کا تعین کرنا تھا۔
این ٹالبوٹ “پاکستان: اے ماڈرن ہسٹری” میں بیان کرتے ہیں کہ باجوڑ پر حملہ افغانستان کی طرف سے قبائلی علاقوں پر باقاعدہ طاقت کے ذریعے اثر ڈالنے کی پہلی منظم کوشش تھی۔ کابل نے امید باندھی تھی کہ باجوڑ اور دیر کے قبائلی جھگڑوں کو ہوا دے کر اپنی پختونستان مہم کو آگے بڑھا سکے گا۔
احمد شائق قاسم اپنی کتاب “افغانستان: سیاسی استحکام—ایک ادھورا خواب” میں لکھتے ہیں کہ افغان حکومت نے نواب آف دیر اور خان آف جندول کے مقامی جھگڑے کو استعمال کرتے ہوئے فوجی بھیجے جو سویلین کے بھیس میں تھے لیکن اصل میں باقاعدہ فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس معاملے کو اجاگر کیا جا سکے۔تاہم، باجوڑ کے عوام نے افغان دراندازی کے خلاف مزاحمت کی۔ نواب آف خار کی قیادت میں مقامی قبائل، باجوڑ سکاؤٹس اور نیم فوجی دستے سب نے مل کر افغان لشکر کا مقابلہ کیا۔ نتیجتاً افغان فوج کو بھاری نقصان اٹھا کر پسپائی اختیار کرنی پڑی۔جوزف جے زاسلوف اپنی کتاب “دی افغان پاکستان کانفلکٹ” میں لکھتے ہیں کہ اس کارروائی کا اصل مقصد مقامی قبائل کو پاکستانی حکومت کے خلاف بھڑکانا تھا لیکن اس کا انجام ایک فیصلہ کن شکست کے طور پر ہوا
دیر پر دوسرا حملہ
باجوڑ کی ناکامی کے بعد اگلے ہی سال افغانستان نے دیر کے علاقے میں ایک اور مہم شروع کی۔ مارک سائیگز اپنی کتاب “وار ان دی ٹرائبل زونز” میں لکھتے ہیں کہ دیر پر حملہ اچانک اور شدید تھا۔ افغان فوجی تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے نمودار ہوئے اور چند منٹوں ہی میں گولیوں اور مارٹر گولوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔
حسن عباس اپنی کتاب “دی فرنٹیئر ابلیز” میں لکھتے ہیں کہ افغان کمانڈروں کو یقین تھا کہ وہ تیزی سے دیر پر قبضہ کر لیں گے اور پشتون قبائل کو پاکستان کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر دیں گے، لیکن پاکستانی کمک کے پہنچتے ہی جنگ کا رخ بدل گیا۔ اس بار پاکستان نے فضائیہ بھی استعمال کی اور افغان فوج کو ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹیلبوٹ اِملے اپنی تصنیف “دی فرنٹیئر کوئسچن” میں لکھتے ہیں کہ افغان حکومت کو نہ صرف مقامی حمایت کی کمی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پاکستانی فوج کے تیز اور مؤثر ردعمل نے ان کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا۔شجاع نواز اپنی کتاب “کراسڈ سورڈز” میں وضاحت کرتے ہیں کہ باجوڑ اور دیر کے یہ واقعات پاکستان کے لیے ایک اہم موقع تھے جن کی بدولت ریاست نے شمال مغربی قبائلی علاقوں پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کیا۔
نتائج اور اثرات
راجا انور کی مرتب کردہ “دی ٹریجڈی آف افغانستان” کے مطابق افغان قیادت ان دراندازیوں کو ایک وسیع پشتون بغاوت کا محرک سمجھ رہی تھی، جو بالآخر “پختونستان” کے قیام کی طرف لے جائے گا۔ مگر ناکامی کو کابل نے مقامی حمایت کی کمی کے بجائے پاکستان کے فوجی ردعمل اور بیرونی طاقتوں کی مدد سے جوڑ دیا۔
شجاع نواز کے مطابق ان واقعات نے خطے کی جیوپولیٹکس پر گہرے اثرات ڈالے۔ پاکستان نے اپنی فوجی قوت اور تیز ردعمل سے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات مزید گہرے ہوئے جبکہ افغانستان سوویت بلاک کے قریب چلا گیا۔ یوں سرد جنگ کی تقسیم جنوبی ایشیا میں اور زیادہ نمایاں ہو گئی
۔بیجان عمرانی اپنی کتاب “ڈیورنڈ لائن: تاریخ، نتائج اور مستقبل” میں لکھتے ہیں کہ ان حملوں نے ڈیورنڈ لائن کو ایک عملی بین الاقوامی سرحد کے طور پر مزید مستحکم کر دیا، باوجود اس کے کہ افغان حکومت اس پر احتجاج کرتی رہی۔
سفارتی تعلقات کا خاتمہ
15 اگست 1961 کو پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ جلال آباد اور قندھار میں اپنے کونسل خانے بند کرے گا اور کابل سے بھی یہی مطالبہ کیا۔ بالآخر 6 ستمبر کو دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات مکمل طور پر ٹوٹ گئے
۔اس فیصلے کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کو ہوا۔ کسٹم ڈیوٹی سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بڑی کمی واقع ہوئی، زرِمبادلہ کے ذخائر گھٹ گئے، مہنگائی میں اضافہ ہوا اور روزمرہ اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی۔ سرحدی پابندی سے افغان معیشت کو زبردست دھچکا لگا کیونکہ پھلوں کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی۔ پہلے روزانہ ایک ہزار ٹن کے قریب انگور پاکستان لائے جاتے تھے مگر یہ سلسلہ رک گیا۔
پاکستان میں بھی ٹرکنگ کمپنیاں متاثر ہوئیں، مگر مجموعی نقصان افغانستان کو زیادہ اٹھانا پڑا۔ امدادی اور ترقیاتی منصوبے بھی رک گئے کیونکہ زیادہ تر سامان پاکستان کے راستے ہی آتا تھا۔
تعلقات کی بحالی اور نیا دور

بالآخر 1963 میں ایران کے شاہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا اور دوں/کوں کے درمیان مذاکرات شروع کروائے۔ تقریباً بائیس ماہ کے تعطل کے بعد 28 مئی 1963 کو ایک معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں کاروباری، کونسلر اور سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ اگلی دہائی میں افغان حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کیں۔لیکن یہ امن وقتی ثابت ہوا۔ 1973
میں ظاہر شاہ کی معزولی کے بعد محمد داؤد خان دوبارہ اقتدار میں آئے تو پختونستان پالیسی کو پھر زندہ کر دیا گیا، جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات ایک بار پھر کشیدگی کی نئی منزل میں داخل ہو گئے۔