یہ ستمبر 1965 کی جنگ کا پہلا ہفتہ تھا۔ ایک طرف 55 انڈین فوجی جدید ہتھیاروں سے لیس کھڑے تھے اور دوسری طرف ایک پاکستانی فوجی پائلٹ، جس کے پاس صرف اپنی وردی اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی تھی۔
یہ پاکستانی افسر غلطی سے دشمن کی ایک چوکی پر اتر گئے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اپنی جان کیسے بچائیں۔ مگر اچانک ان کے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا، ساتھ ہی پاکستانی فضائیہ کی مدد شامل ہوئی اور یوں ایک ایسا ناقابلِ یقین واقعہ رونما ہوا جو عسکری تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر وہی 55 بھارتی فوجی قطار میں چلتے ہوئے پاe/اقے میں داخل ہوئے اور کئی میل پیدل سفر کے بعد جنگی قیدی بن گئے۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ بہادر افسر بعد میں پاکستان کے دو وزرائے اعظم کے قریبی مشیر بھی رہے اور ملکی داخلہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے رہے۔یہ شخصیت کون تھے؟
آئیے واقعے کی تفصیل جانتے ہیں۔
آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلیم کی جھلک

پاکستان آرمی ایوی ایشن کی تاریخ میں درج ہے کہ اگست 1965 میں آپریشن جبرالٹر ناکام ہونے کے بعد فوجی قیادت نے “آپریشن گرینڈ سلیم” شروع کیا جس کا مقصد اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔
اسی دوران لیفٹیننٹ کرنل نصیر اللہ بابر اپنے ساتھی پائلٹس کے ساتھ راولپنڈی سے کشمیر کی طرف پرواز پر نکلے۔ منصوبہ یہ تھا کہ میدانِ جنگ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔
لیکن قسمت نے کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا تھا۔
دشمن کی چوکی پر لینڈنگ
نصیر اللہ بابر اور ان کے ساتھی ایک چوکی پر اترے جہاں وہ سمجھے کہ شاید کوئی زخمی فوجی ہوگا۔ لیکن یہ چوکی دراصل بھارتی فوج کے قبضے میں تھی۔ قریب جا کر پتا چلا کہ تین سکھ فوجی مورچے میں موجود ہیں۔ اگر وہ گولی چلا دیتے تو کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔
خوش قسمتی سے نصیر اللہ بابر کی شخصیت، ان کی وردی اور خود اعتمادی کام آ گئی۔ انھوں نے پنجابی میں بات چیت شروع کی اور سکھ فوجیوں کو یہ تاثر دیا کہ بھارتی افواج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ وہ ان کے افسران کو جانتے ہیں اور صرف ان کی حفاظت کے لیے آئے ہیں۔
فضائی جھڑپ اور قیدی بننے کا لمحہ
اسی دوران بھارتی طیارے علاقے پر حملہ کرنے پہنچے لیکن اچانک پاک فضائیہ کے سیبر طیارے بھی آ گئے۔ فضائی لڑائی میں بھارتی جہاز مار گرائے گئے جس سے بھارتی فوجیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔
اس موقع پر نصیر اللہ بابر نے موقع غنیمت جانا اور فوجیوں کو حکم دیا کہ ہتھیار زمین پر رکھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پوری پوسٹ کے درجنوں فوجی ان کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔
رات کے وقت چاندنی کی روشنی میں نصیر اللہ بابر ان فوجیوں کو قطار میں لے کر پاکستانی حدود کی طرف روانہ ہوئے اور کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ سب پاکستانی فوج کے حوالے کیے گئے۔
ستارۂ جرأت سے نوازا گیا
یہ خبر جلد ہی اخبارات میں شائع ہوئی اور پورے ملک میں فوجیوں کا مورال بلند ہوا۔ اگرچہ اعلیٰ افسران نے نصیر اللہ بابر کی مہم جوئی پر سرزنش بھی کی لیکن بعد میں انھیں اس کارنامے پر ستارۂ جرأت عطا کیا گیا۔
سیاست کا سفر اور بعد کی زندگی
لیفٹیننٹ کرنل نصیر اللہ بابر فوج میں ترقی کرتے ہوئے میجر جنرل بنے لیکن بعد ازاں استعفیٰ دے کر سیاست میں آئے۔
وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی رہے، خیبر پختونخوا کے گورنر بنے، اور بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں وزیرِ داخلہ رہے۔ کراچی میں “آپریشن بلیو فاکس” بھی ان کی نگرانی میں ہوا۔
ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ افغان جنگ کے دوران بعض مجاہدین گروپوں کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کرنے میں ان کا کردار رہا، اور طالبان کی تشکیل میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔
جنوری 2011 میں نصیر اللہ بابر پشاور کے سی ایم ایچ میں انتقال کر گئے۔