اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے راستے جب ہم وسطی پنجاب کے متاثرہ علاقوں کی کوریج کے لیے نکلے تو وزیر آباد تک سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ لیکن جیسے ہی ہم ایک پُل پار کر کے وزیر آباد-سیالکوٹ روڈ پر پہنچے تو صورتحال یکسر بدل گئی۔
سڑک کے اطراف کی عمارتوں پر پانی کے نشانات آٹھ فٹ تک واضح تھے جبکہ شہر کے اندر یہ سطح تقریباً پانچ فٹ تک ریکارڈ کی گئی۔ اگرچہ پانی اب کسی حد تک اتر چکا تھا مگر گلی کوچوں اور گھروں میں مٹی اور گندگی کے ڈھیر تاحال موجود تھے۔
ماجراں کلاں کا دکھ بھرا واقعہ
ہم نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے سیالکوٹ کی تحصیل ماجراں کلاں جائیں جہاں ایک نوجوان محمد عمران اپنے اہل خانہ کے پانچ افراد کے ساتھ سیلابی ریلے میں جان کی بازی ہار بیٹھا تھا۔
ماجراں کلاں تک جانے کے تین راستے ہیں۔ ایئرپورٹ کے راستے سے گزرنا ممکن نہ تھا کیونکہ پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ آخرکار سمبٹریال کے گاؤں سے گزرنے والا راستہ اختیار کیا گیا، جس پر ایک گھنٹے بعد ہم عمران کے گھر پہنچے۔عام دنوں میں یہ فاصلہ دس منٹ میں طے ہو جاتا ہے لیکن تباہ شدہ عمارتوں اور پانی سے ڈوبی زمین نے سفر کو کٹھن بنا دیا تھا۔
عمران کے چچا ارشد محمود نے بتایا کہ 28 اگست کی رات بارش اور چناب میں طغیانی کے دوران عمران اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ آبائی گھر کی طرف جا رہا تھا تاکہ محفوظ مقام تک پہنچ سکے۔ لیکن راستے میں پانی کے اچانک بڑھنے سے وہ اپنی بیوی اور چار بچوں سمیت پانی کی نذر ہو گیا۔ صرف ایک بیٹا زندہ بچ سکا جو آج بھی بار بار پوچھتا ہے کہ اس کے والدین اور بہن بھائی کہاں ہیں۔
قبرستان اور لاشوں کا المیہ
سیلابی پانی نے نہ صرف گھروں کو متاثر کیا بلکہ قبرستان بھی ڈوب گئے۔ نتیجتاً فوت ہونے والے افراد کی تدفین ممکن نہ رہی اور لاشوں کو عارضی طور پر فریج جیسے تابوتوں میں رکھا گیا
چک اختیار گاؤں کی بربادی
چناب کے قریب واقع یہ گاؤں سب سے زیادہ متاثر ہوا کیونکہ یہاں بند ٹوٹ گیا تھا۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جانور بڑی تعداد میں بہہ گئے اور لاشوں سے تعفن پھیلنے لگا ہے۔ کسان اپنے بچے کھچے مویشی بچانے یا سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
کھڑی فصلوں کی بربادی
وزیر آباد، سیالکوٹ اور نارووال کے دیہی علاقے اب بھی زیرِ آب ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر پھیلی چاول کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سال چاول کی پیداوار میں بڑی کمی آئے گی جس سے مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ایک ماں اور تین بچوں کا واقعہ
وزیر آباد کے رانا بہرام گاؤں میں ایک خاتون نے کشتی اور ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال پہنچنے کی کوشش کے دوران راستے میں ہی تین بچوں کو جنم دیا۔ مگر بدقسمتی سے طبی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے بچے چند منٹ بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔خاتون اس سانحے سے شدید صدمے میں ہے جبکہ ان کا شوہر روزگار کے لیے بیرون ملک موجود ہے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اگر بروقت طبی سہولت میسر آتی تو شاید یہ ننھے پھول بچائے جا سکتے تھے۔—