سابق وزیر اعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد، اُن کے جسدِ خاکی (میت) کو غسل دینے والے بابا حیات محمد. اُن کا تعلق تحصیل تلہ گنگ سے تھا . بابا حیات محمد کی مکمل گفتگو، سینئر صحافی، ساجد کلیم کے مضمون سے
پس منظر
25 سال پہلے کچھ ساتھیوں کے تعاون سے تحصیل تلہ گنگ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں اس شخص سے بات چیت کرنے پہنچا جس نے 3 اور 4 اپریل کی درمیانی رات قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے جسد خاکی(میت) کو غسل دیا تھا۔
میں اسوقت روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے لئے کام کرتا تھا۔حیات محمد کو جب معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے کوئی اخبار والا آیا ہے بھٹو صاحب کی پھانسی کے حوالے انٹرویو کرنے تو وہ گاؤں کی مسجد میں چھپ گیا اور اندر سے کنڈی لگا لی۔کافی دیر تک اسے راضی کرنے کی کوشش جاری رہی کہ اب تو جنرل ضیا کو مرے ہوئے 12 سال ہو چکے ہیں۔اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔جو بھی سچائی ہے تمہارے پاس وہ عوام کی امانت ہے۔ڈر کے مارے اپنے ساتھ قبر میں لے کر جانے سے بہتر ہے اس کا اظہار کردو۔آخر کار بہت دیر بعد وہ دروازے کھول کر مسجد سے باہر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے جو لوگ لے کر گئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ اگر تم نے اس بارے میں کبھی بھی زبان کھولی یا اخبار والوں کو کچھ بتایا تو تمہیں تمہارے خاندان سمیت ختم کر دیں گے۔وہ مجھے مسجد میں لے گیا اور قرآن پر مجھ سے وعدہ لیا کہ جن جن باتوں کی میں اجازت دوں گا صرف وہی اخبار میں انی چاہئیں باقی میرے مرنے کے کئی سال بعد۔۔اس نے مجھ سے یہ وعدہ بھی کیا کہ میں اسکی آواز ریکارڈ نہیں کروں گا۔۔۔میں نے وعدہ کرلیا اور بات چیت شروع ہوئی۔واضح رہے کہ اس انٹرویو کا ایک حصہ 25 سال پہلے روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے رنگین صفحات پر شائع ہو چکا ہے۔اور ملک بھر سے کئی سال تک قارئین کی طرف سے اس پر فیڈ بیک آتا رہا۔آج اپنے سوالات چھوڑ کر بابا حیات محمد کی مکمل گفتگو منظرعام پر لا رہا ہوں۔بابا حیات محمد نے کہا:”میں مولوی غلام اللہ کی مسجد میں خادم تھا۔بھٹو صاحب کی پھانسی سے ایک دن پہلے(دو اور تین اپریل کی درمیانی رات)نماز عشا کے بعد کچھ فوجی ایک گاڑی میں مجھے ساتھ لے گئے۔گاڑی میں بٹھانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور مجھے تسلی بھی دیتے رہے کہ پریشان نہ ہونا۔تمہیں چھوڑ دیں گے۔وہ مجھے دو تین گھنٹے گاڑی میں لے کر پھرتے رہے۔میری آنکھوں پر پٹی تھی۔۔مجھے نہیں پتہ چلا وہ مجھے لے کر کہاں پھر رہے ہیں۔اسکے بعد ایک کمرے میں لے جا کر میری پٹی کھولی گئی۔میں نے جائے نماز مانگی۔انہوں نے دے دی۔پھر مجھے ناشتہ دیا گیا۔میں نے پوچھا مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے تو جواب ملا کہ بس دو دن بعد تمہیں چھوڑ دیں گے۔دن کا کھانا بھی دیا گیا۔رات کےکھانے کے بعد وہ مجھے اسی طرح آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک اور جگہ لے گئے اور ایک کمرے میں بند کر دیا۔میری نیند اڑ گئی تھی۔آدھی رات کو میں اپنی خیریت کے لئے دعائیں مانگ رہا تھا کہ دو آدمی آئے اور مجھے کہا ایک میت کو غسل دینا ہے۔لیکن اسکا ذکر کسی سے کیا تو تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔وہ مجھے ساتھ لے گئے۔تھوڑی دور پیدل چل کر مجھے ایک جگہ زمین پر بٹھا دیا۔رات کے ایک ڈیڑھ بجے کا وقت ہو گا شاید۔مجھے دو بڑی بالٹیاں گرم پانی اور صابن تولیہ غسل کا سامان وغیرہ بھی دے دیا گیا۔دو جوان بھی مدد کے لئے میرے پاس بٹھا دئیے گئے۔اس جگہ دس بارہ آفسر کھڑے تھے اور ارد گرد بہت سے فوجی جوان بندوقیں اٹھائے ڈیوٹی دے رہے تھے۔ایک فوٹو گرافر اور ایک بہت لمبے قد کا آدمی بھی تھا جو فلم(وڈیو)بنا رہا تھا۔ایک آدمی جو حلیے سے جلاد لگ رہا تھا وہ بھی موجود تھا۔وہاں پہنچتے ہی چند منٹوں کے بعد میں حیران رہ گیا جب میں نے دیکھا کہ آٹھ دس افسروں اور مسلح سپاہیوں کے ساتھ ایک بہت ہی کمزور آدمی جو ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہا تھا بہت ہی ہستہ آہستہ چلتا ہوا ہماری طرف آرہا تھا۔اور سب سے پیچھے دو آدمی خالی اسٹریچر اٹھا کر چل رہے تھے۔تھوڑا قریب آنے پر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بھٹو صاحب تھے۔انکو ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور ایک سپاہی نے ہتھکڑی کی زنجیر اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔میں یہ سب دیکھ کر ڈر گیا اور مجھے سمجھ آگئی کہ یہ مجھے بھٹو صاحب کی میت کو غسل دلانے کے لئے یہاں لائے ہیں۔بھٹو صاحب بہت ہی کمزور لگ رہے تھے اور ان سے چلا نہیں جا رہا تھا پھر بھی وہ بہت آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ چل رہے تھے لیکن ان کے چہرے پر بہت سکون اور اطمینان تھا۔ہم سب لوگوں کے قریب پہنچ کر انکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور انہوں نے ہتھکڑی میں سے اپنا دایاں ہاتھ بھی ہلکا سا ہلایا جس طرح وہ جلسوں جلوسوں میں ہلایا کرتے تھے۔بھٹو صاحب ہمارے سامنے سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پھانسی گھاٹ تک گئے اور پھانسی کے تختے پر جا کر کھڑے ہو گئے۔جلاد (مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اسکا نام تارا مسیح تھا) نے انکے ہاتھ پیچھے باندھ دئیے اور انکے پاؤں بھی رسی سے باندھ کر انکے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب چڑھا دیا۔اس وقت انہوں نے سر کو دائیں بائیں دو تین بار ہلایا جیسے وہ کہنا چاہتے ہوں کہ اسکی ضرورت نہیں اسکو اتار دو۔اسکے بعد تارا مسیح نے رسہ انکی گردن میں ڈالنے کے بعد ہینڈل کھینچ دیا اور وہ نیچے موت کے کنوئیں میں لٹک گئے۔تقریبآ آدھے گھنٹے بعد تارا مسیح نے جب انہیں نیچے اتارا تو اس کے چند منٹ بعد ایک زوردار چیخ کی آواز سنائی دی اور تارا مسیح بے ہوش ہوگیا۔فوجی جوانوں نے اسے فوری طور پر اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں ڈالا اور تیزی سے لے گئے۔اسکے بعد بھٹو صاحب کی میت کو غسل دینے کے لئے موت کے کنوئیں کے ساتھ ہی رکھے ہوئے لکڑی کے تختے پر لایا گیا اور میں نے دو آدمیوں کی مدد سے انکی میت کو غسل دینا شروع کیا تو یہ دیکھ کر میری عجیب حالت ہوگئی کہ بھٹو صاحب کی آنکھیں ابلی ہوئی یعنی باہر کی طرف نکلی ہوئی نہیں تھیں جیسے پھانسی کے بعد ہو جاتی ہیں۔انکی زبان بھی باہر نہیں نکلی ہوئی تھی اور انکی گردن بھی نہ تو لمبی ہوئی تھی اور نہ ہی گردن کا منکا یا ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔بھٹو صاحب کے چہرے پر اتنا نور تھا جیسے چودھویں کا چاند ہو۔سب سے بڑی حیرت کی بات یہ تھی کہ میں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کا عمل اپنے سامنے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود انکی گردن پر رسے کا بالکل کوئی نشان تک نہیں تھا۔یہ سب دیکھ کر میرا سارا جسم پسینے سے گیلا ہو گیا،میں نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور میرے ہاتھ، میرا سارا جسم کانپ رہا تھا۔”اس موقع پر میں نے حیات محمد سے پوچھا کہ غسل دیتے ہوئے آپ نے بھٹو صاحب کے جسم پر تشدد کے نشان تو نہیں دیکھے؟حیات محمد کہنے لگا “بھٹو صاحب کے سر کے پچھلے حصے پر گومڑا بنا ہوا تھا جیسے انہیں وہاں مارا گیا ہو۔انکی گردن کے پچھلے حصے پر بھی چوٹ کا نشان تھا۔اسکے علاؤہ انکی کنپٹیوں،کاندھوں،کمر اور ٹانگوں پر بھی جگہ جگہ نیل پڑے ہوئے تھے جیسے کسی سخت چیز سے انہیں مارا گیا ہو۔بھٹو صاحب کے پورے جسم پر جگہ جگہ چھالے بھی نکلے ہوئے تھے۔جب میں بھٹو صاحب کی میت کو غسل دے رہا تھا اسوقت بھی وہ فوٹوگرافر اور وڈیو فلم بنانے والا آدمی دونوں تصویریں اور فلم بنارہے تھے۔میت کو غسل دینے کے بعد مجھے وہاں سے دوبارہ اسی کمرے میں واپس لے گئے۔کمرے میں پہنچتے ہی مجھے تیز بخار ہو گیا۔ڈاکٹر آیا اس نے مجھے چیک کیا اور دوائی دی۔شام تک بخار اتر گیا تو میرے کمرے میں ایک بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی آیا۔اس نے مجھے کچھ پیسے بھی دیئے اور سختی سے خبردار کیا کہ تم نے آج یہاں جو کچھ بھی دیکھا ہے اگر کبھی زندگی بھر کسی سے اس کا ذکر کیا تو تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی خیر نہیں۔رات کو وہ مجھے واپس چھوڑ گئے۔جنرل ضیا کے مرنے کے بعد جب میں نے اپنے قریبی عزیزوں کو اس بارے میں بتایا اور انکے ذریعے سینہ بہ سینہ مزید لوگوں کو پتہ چلا تو بھٹو صاحب کے کئی چاہنے والے لوگوں سے پوچھتے پاچھتے مجھ تک پہنچتے اور بھٹو صاحب کی عقیدت میں میرے ہاتھوں کو چومتے لیکن آپ سے پہلے میں نے کبھی کسی اخبار والے سے کبھی بات نہیں کی۔ میرے خیال میں ضیا نے بھٹو صاحب کے ساتھ بہت ظلم کیا۔ان جیسا لیڈر ہمیں کبھی نہیں مل سکتا۔بھٹو صاحب کے ساتھ ظلم کی وجہ سے ضیا کی عبرتناک موت ہوئی۔”